صدر مملکت نے صیہونیوں کے مقابلے میں امت اسلامیہ کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران اپنے دوستوں کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوگا اور ہمارا یقین ہے کہ اسلامی ممالک اگر تعاون کا طریقہ کار اپنائیں تو تمام مسلمان ترقی و پیشرفت سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ تمام اسلامی ممالک کے لیے ایران کا پیغام امن و برادری کا پیغام ہے اور باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے حصول کے تحت تمام اسلامی ممالک کے ساتھ تعاون میں فروغ کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ اس پالیسی کے تحت شام کو خاص حیثیت حاصل ہے۔
صدر مملکت نے زور دیکر کہا کہ دوطرفہ تعاون میں فروغ اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے علاقے کے عوام کے خلاف امریکی اور صیہونی سازشوں کو بے اثر کیا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر شام کے وزیر خارجہ نے شام کے صدر بشار اسد کا پیغام اور سلام ڈاکٹر مسعود پزشکیان کو پہنچایا اور کہا کہ ایران اور شام کے تعلقات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دمشق کی کوشش ہے کہ ممتاز سیاسی تعلقات کی بنا پر معیشت، تجارت اور ثقافت میں بھی تعاون میں فروغ لایا جائے گا۔
بسام صباغ نے شام کی حکومت اور عوام کی اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے حمایت کی قدردانی کی اور کہا کہ تہران اور دمشق کو امریکی- صیہونی سازشوں کا مشترکہ طور پر سامنا ہے اور شام کا بھی یقین ہے کہ اس سازش کے مقابلے میں ضعف، سستی یا پسپائی اختیار کرنے کا نتیجہ پورے علاقے کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا اور ہمیں کمزور کردے گا۔
انہوں نے کہا کہ بشار اسد نے ہمیشہ استقامتی محاذ کی حمایت کی ہے اور شام کا یقین ہے کہ حالات کی تبدیلی حقیقت کی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتے۔
شام کے وزیر خارجہ نے کہا کہ آج شام کے جنوبی علاقوں پر صیہونی جارحیت کے علاوہ شمالی علاقوں میں غیرملکی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی سرگرمیاں بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں اور دوسری جانب شام کو استقامتی محاذ سے الگ کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے، لیکن سب کو جان لینا چاہیے کہ شام استقامتی محور سے ہرگز الگ نہیں ہوگا۔
بسام صباغ نے صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیاب سفارتکاری اور دنیا کو متحد کرانے کی تحریک کو سراہا اور کہا کہ شام سفارتکاری کے شعبے میں بھی تہران کے ساتھ تعاون میں فروغ اور مزید ہماہنگی کا خواہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی میدان میں تہران اور دمشق کے تعاون کے نتیجے میں امریکی پابندیوں کو بھی بے اثر کیا جاسکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ